web 2.0

علامہ اقبال کے ساتھ ان کے تصور خدا پر ایک خیالی مکالمہ

 
By: Uzma Saeed
 
 
 
آپ کا نظریۂ خدا اتنا مبہم کیوں تھا؟
 
آپ آج سے سو سال پہلے کے بر صغیر کا تصور کریں. اس وقت مزہبی رجعت پسندی , تفرقہ بندی اور فرقہ پرستی عروج پر تھی۔  بات بات پر کفر کے فتوے لگائے جاتے تھے۔ ان حالات میں راتوں رات تبدیلی کا تصور بیکار تھا ۔ تبدیلی ایک مسلسل اور بتدریج عمل ہےاور یہ کسی خلا میں واقع نہیں ہوتی ۔اسکے لئے مناسب معاشی، سائنسی اور علمی فضا کا ہونا بھی ضروری ہے۔ لیکن مزہبی تشکیل نو ایک اہم کام تھا۔ اس کو وقت کے دھارے پر نہیں چھوڑا جا سکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے مسلمانوں کی مزہبی سوچ کی تعمیر نو کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ۔ ایسا کرتے ہوئے میں نےاحتیاط سے کام لیا اورکچھ آداب کو ملحوظ خاطر رکھا۔ اس زمانے کےقارئین کے نفسیاتی رحجانات بھی میرے مد نظر تھے- مگر پھر بھی اگر بغور پڑھیں تو میری شاعری کا مفہوم سمجھ سے بالا تر نہیں ہے۔

 
آپ کا نظریۂ خدا کیا ہے؟
 
میرے نظریۂ خدا میں کائنات کی وحدت ایک بنیادی نکتہ ہے۔ یہ وحدت تمام وجود پر محیط ہے اور اس کے باہر کچھ نہیں ہے۔ میں نے خدا کو کائنات میں دیکھا ہے۔ خدا فطرت یا کائنات کے لئے وہی ہے جو کردار انسان کے لئے ہے۔ کائنات اپنی نوعیت میں روحانی ہے۔ روحانیت کا مطلب کوئ پراسرار قوت نہیں اور نہ ہی کائنات کا کردار کائنات کی طبعی ماہیت سے الگ ہے۔ سائنس کے مطابق کائنات ایٹمز سے بنی ہے مگر ایٹم  کوئ چیز نہیں جس میں برقی رو گزر رہی ہو بلکہ یہ خود ایک برقی موج ہے۔ چنانچہ کائنات میں جو اشیا بظاہر ٹھوس نظر آتی ہیں وہ حقیقت میں محض افعال اور حوادث کا ایک نظام ہیں۔ کائنات میں اجسام اور اشیا کی کثرت ظاہری ہے- حقیقت اصل میں ایک ہےاور یہی حقیقت مطلق ہے۔
 
آپ نے انسان کو اپنی خودی میں خدائ کو تلاش کرنے پر زور کیوں دیا ہے ؟ 
 
کائنات کا ہر ایٹم چاہے وہ وجود کے پیمانے پر کتنا ہی ادنی ہو ایک خودی ہے ۔ لیکن خودی کے درجات ہیں۔ وجود کے مکمل دائرے میں خودی کی ایک بڑھتی ہوئ آواز ہے جو انسان میں اپنی تکمیل کو پہنچتی ہے۔ اسی لئےقرآن مجید میں خدا کو انسان کی شاہ رگ  سے نزدیک تر بتایا گیا ہے ۔ خودئ الہی کی تسبیح میں ھماری خودی موتیوں کی طرح رہتی اور چلتی ہے ۔ وقت کے خالص اور طویل دورانیہ میں انسانی سوچ،  زندگی اور مقاصد ایک  کے دوسرے میں مل کر کےایک عضو واحد بناتے ہیں۔ ہم اس وحدت کا تصور ایک خودی کی وحدت کی صورت میں کر سکتے ہیں۔ جو ایک محیط کل واضح خودی ہے اور تمام انفرادی زندگی اور سوچ کا سرچشمہ ہے۔ 
 
 
مگر تشکیل نو میں آپ نے انسانی سوچ، زندگی اور مقصد کے بجائےصرف  سوچ ، زندگی اور مقاصد کے الفاظ استعمال کئے ہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ آپ انسانیت سے ماورا سوچ کی بات کر رہے ہیں ؟
 
یہ تاثر غلط ہے ۔ اگر آپ ان الفاظ کے سیاق وسباق کو پڑہیں جو میرے دوسرے خطبہ میں درج ہیں تو آپ کو معلوم ہو گا کے اس خطبہ میں انسانی شعور ، زندگی اور مقاصد پر بحث کی گئ ہے اور یہ الفاظ اسی بحث کے اختتام پراستعمال کئے گئے ہیں۔ میں نے چوتھے خطبہ میں ذہن اور سوچ کےدرمیان کسی قسم کی دوئ کو قطعی طور پر رد کیا ہے۔ کائنات کی محیط کل حقیقت کا حاصل انسان ہے۔ 
 
میں نے زبور عجم میں کہا ہے: 
 
جہان مشت گل و دل حاصل اوست
ہمین یک قطرۂ خون مشکل اوست
 
نگاہ ما دو بین افتاد ورنہ
جہان ھر کسی اندر دل اوست
 
 
The world is a handful of dust, the heart its essence
This drop of water is at the root of all its trouble
 
Our vision began to see duality otherwise
The Cosmos is inside everyone's heart
 
اگر خدا فطرت کا کردار ہے تو فطرت میں چاند، ستارے ، پہاڑ اور سمندر بھی موجود ہیں ۔ آپ نے انسانی خودی پر اتنا زور کیوں دیا؟
 
جیسا کہ میں نے پہلے کہا کائنات کے ہر ذرہ میں خودی یا شعور کا ایک بڑھتا ہوا درجہ ہے جو انسانی خودی میں اپنی انتہا کو پہنچتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی خودی میں خدا کو  دیکھنے کی بات محض لفاظی نہیں بلکہ سنجیدہ اہمیت کی حامل ہے۔ محیط کل حقیقت میں کائنات کا ہر ذرہ شامل ہے لیکن اس کی معراج انسان کا شعور ہے۔ میں نے بال جبریل میں اس خیال کا اظہار یوں کیا ہے ۔
 
عالم آب و خاک و باد! سر عياں ہے تو کہ ميں 
وہ جو نظر سے ہے نہاں ، اس کا جہاں ہے تو کہ ميں 
 
O world of water, dust and air
Are you the manifest secret or I
The One who is hidden from the eye
Are you His world, or I
 
تو کف خاک و بے بصر ، ميں کف خاک و خودنگر 
کشت وجود کے ليے آب رواں ہے تو کہ میں 
 
You are a handful of dust and sightless
I am a handful of dust with vision
 For the harvest of Being 
Are you a flowing stream or I
 
بہت سے قارئین کو آپ کے کام میں ایک ماورا خدا کا تصور نظر آتا ہے، آس کی کیا وجہ ہے، کیا آپ کے نظریات میں کوئ تضاد ہے؟
 
میں نے اپنے لیکچرز کے مجموعے تشکیل نو میں خدا کے تصور پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ میں نے اس میں ماورائت کو بھی رد کیا ہے اور پینتھیزم کے اس تصور کو بھی رد کیا ہے جس میں خدا کو کائنات میں جاری ایک برقی روکی صورت میں تصور کیا جائے۔ میں نے اپنے خطبات میں کہا تھا کہ خودئ مطلق کسی ایسے مقام پر نہیں جہاں اس کے سامنے کوئ غیر خودی موجود ہو ۔ خدا اور کائنات کے درمیان کوئ خلیج موجود نہیں ہے۔ میرے تصور خدا میں وحدت تمام وجود کی اکائ ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ میں نے تشکیل نو میں لکھا تھا:   
 
 ''دنیا میں ایسی کوئ خالص مادیت نہیں ہے جس میں اس تخلیقی امتزاج کے ارتقا کی اھلیت نہ ہو جسے ہم زندگی اور ذہن  کہتے ہیں، اور دنیا میں ذہن اور احساس  لانے کے لئے ایک ماورا خدائ کی ضرورت پڑے۔'' 
 
میرے نزدیک کائنات خود خدا کی ذات کا اظہار ہے ۔ لیکن خدا کے اس تصور کا اقرار اور اظہار کرنے کے لئے ضروری ہے پہلے ایک خارجی ہستی کے روائتی تصور کا انکار کیا جائے۔
 
میں نے اپنی شاعری میں اس خیال کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے۔
 
نفي ہستي اک کرشمہ ہے دل آگاہ کا 
'لا' کے دريا ميں نہاں موتي ہے 'الااللہ' کا
 
The negation of Being (as an external reality) is the miracle of an aware heart
In the river of negation of Being lies hidden the pearl of affirmation of God (of God's immanence)
 
 توڑ ديتا ہے بت ہستي کو ابراہيم عشق 
ہوش کا دارو ہے گويا مستي تسنيم عشق 
 
Passion of Abraham smashes the idol of Being
The intoxication of love cures sobriety (excessive rationality)
 
این جھانی کہ تو بینی اثر یزدان نیست
چرخہ از تست و ہم آن رشتہ کہ بر دوک تو رشت
پیش آئین مکافات عمل سجدہ گزار
زانکہ خیزد ز عمل دوزخ و اعراف و بہشت
 
The world thou seest is not
The handicraft of the Lord,
From thee alone emerge
The spinning wheel, the cord.
 
Before the law of actions
Bow, from the rest be free,
They are deed’s reflections
Hell, heaven, purgatory
 
از خود اندیش و ازین بادیہ ترسان مگذر
کہ تو ہستی و وجود دو جہان چیزی نیست
 
Know yourself and pass this desert fearlessly
For you have Existence and Being, the two worlds are non-entities
 
میں صورت گل دست صبا کا نہیں محتاج
کرتا ہے میرا جوش جنوں میری قبا چاک
 
I do not need the hand of breeze like the flower
My own passion tears my robe
 
آپ نے خدا کے تصور کو اس حد تک محدود کیوں کیا؟ 
 
یہ تصور خدا کے روائتی تصور کے علم کل،  طاقت ، ابدیت اور من مانی قوت کے تصور کے مقابلے میں ہمارے مشاہدہ میں آنے والی حقیقت کے قریب تر ہے۔ ہمیں اپنے اندر شعور کے بصیر پہلو کا براہ راست علم ہے۔  ہمارا ادراک زندگی کو ایک یکجا کرتی ہوئ خودی کے طور پر ظاہر کرتا ہے۔ یہ علم ایک نکتۂ آغاز کی حیثیت سے کتنا بھی  نامکمل ہو حقیقت کی اصل نوعیت کو براہ راست ظاہر کرتا ہے۔ ہمارے تجربہ کے حقائق اس نتیجہ کی توثیق کرتے ہیں کہ حقیقت کی اصل نوعیت روحانی ہے اور اس کا تصور ایک خودی کی حیثیت سے کرنا چاہئے۔ 
 
روائتی مزہبی سوچ انسانی شعور کو منجمد کئے ہوئے ہے۔ ایک طاقتور خارجی ہستی کا تصور جس کو آنے والے واقعات کا پیشگی علم ہو انسان کی تخلیقی آزادی تو کیا خدا کی تخلیقی آزادی بھی ختم کر دیتا ہے۔ مزہبی سوچ کی تاریخ  بظاہر منطقی مگر حقیقت میں بے معنی مفروضوں سے بھری ہوئ ہے۔ آج کا انسان بھی قدیم سوچ میں مقید ہے۔  بیشتر مسلمانوں کی مزہبی فکر گزشتہ کئ سو سال سے ساکت ہے۔ اس کو اس دور کہن سے نکل کر دور حاضر کو اپنی گرفت میں لینا ہو گا۔ اور اپنی تخلیقی قوتوں کو ماضی کی پابندیوں سے آزاد کرنا ہو گا۔ اگر آپ حقیقت کا ادراک اپنے تجربات کی بنیاد پر کریں اور فطرت میں خدا کو دیکھیں تو فطرت کا مطالعہ بھی ایک عبادت کا درجہ لے لے گا  اور جدید ذہن ماضی کے انسان کی سوچ میں قید نہیں رہے گا۔ 
 
کیا خدا کا یہ تصور انسانی ذہن کی اختراع نہیں ہے؟ 
 
روائتی طور پر خدا کی حقیقت کی تشریح کے لئے جو زبان اور تصورات استمال کئے گئے ہیں وہ بھی انسانی ذہن کی اختراع ہیں۔ تمام مزاہب نے خدا کو ایک ناقابل ادراک حقیقت کے طور پر بیان کیا ہے۔ آج کے اس دور میں مفکرین مافوق الفطرت عناصر کو رد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور مزہبی سوچ  کو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئ سائنس اور علم کے قریب لانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ میں نےبھی مزہب کو ایک جستجو کی صورت میں دیکھا ہے۔ جستجو کے حاصل کے طور پر نہیں ۔اس لئے میرے نزدیک نئے سائنسی علوم کو اپنی مزہبی فکر میں جزب کرنا عین اسلام ہے۔ میں نے اپنے نظریات کو پیش کرنے سے پہلے فلسفہ دانوں ، مورخوں ، سائنسدانوں ، مزہبی مفکرین اور صوفیائے کرام کی سوچ سے استفادہ کیا ہے ۔ ہر دور کے انسان نے اپنے اپنے وقت کے علم  اور وسائل کی مدد سے دنیا کو سمجھنے کی کوشش کی ہے ۔ علمی سفر کی کوئ منزل نہیں۔ میرے کلام اور نثر میں پیش کئے گئے نظریات حرف آخر نہیں بلکہ مزہبی فکر کی تشکیل نو کے لئے ایک نقطۂ آغاز ہیں۔ دور حاضر کا انسان اپنے بہتر وسائل کی بنیاد پر آج کی دنیا کو  کو سمجھنے کی بہتر صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ ان سائنسی اور علمی وسائل کو بروئے کار لا کر مزہب کی از سر نو تشریح و تعمیر کرے تو اس میں کوئ عار نہیں ہونا چاہئے۔ 
 
دل زندہ و بيدار اگر ہو تو بتدريج 
بندے کو عطا کرتے ہيں چشم نگراں اور 
احوال و مقامات پہ موقوف ہے سب کچھ 
ہر لحظہ ہے سالک کا زماں اور مکاں اور
 
آپ خودی کی تعریف کیسے کرتے ہیں؟
آپ کا فلسفۂ خودی کیا ہے؟
 
خودی ہمارے شعور کا وہ حصہ ہے جس کا تعلق سوچنے ، سمجھنے ، محسوس کرنے اور عمل سے ہے۔ دوسروں کے ساتھ ملنے جلنے کے باوجود ہماری خودی اپنی ذات کے دائرے میں خود مختار بھی ہے۔ یہ انسان کی تخلیقی فعلیت کا مرکز ہے۔ خودی کی یہ تعریف نفسیات کی رو سے ہے۔ میرے کام میں فلسفۂ خودی کی رو سے خودی معاشرے کی اخلاقی حدود کا تعین خود اپنے شعور کی روشنی میں کرنے کا نام ہے۔ یہی میری شاعری کا بنیادی پیغام ہے۔ خودئ مطلق محدود خودیوں کا مجموعہ ہے اور انہی کے ذریعے دنیا میں اثر انداز ہوتی ہے۔
 
خودي ميں گم ہے خدائي ، تلاش کر غافل! 
يہي ہے تيرے ليے اب صلاح کار کي راہ  
 
  آخر میں یہ بتائیں کہ آپ کےاوپر جہادی شاعری کرنے کا الزم عائد کیا گیا ہے۔ کیا یہ درست ہے؟  
 
 خودئ مطلق کی وحدت کا جو تصور میں نے پیش کیا ہے اس سے لازمی طور پر تمام انسانیت کی وحدت اور مساوات کا تصور پیدا ہوتا ہے ۔ میں جنگ کا حامی نہیں ہوں ۔جنگ یا جہاد کی  صرف دو صورتیں ہیں، پہلی صورت میں یعنی اس صورت میں جبکہ مسلمانوں پر ظلم کیا جائے اور ان کو گھروں سے نکالا جائے، مسلمان کو تلوار اٹھانے کی اجازت ہے حکم نہیں۔ دوسری  صورت جس کو سیموئل ہور نے جمعیت اقوام کے اجلاس میں اجتماعی سیکیورٹی کہا تھا قرآن نے اس کا اصول سادگی اور فصاحت سے بیان کیا ہے۔ جنگ کی ان دو صورتوں کے سوا میں کسی جنگ کو نہیں مانتا۔ زمین حاصل کرنے کے لئے جنگ کرنا اسلام میں حرام ہے۔ دین کی اشاعت کے لئے تلوار اٹھانا بھی حرام ہے۔
 
جہاد میری شاعری کا بنیادی موضوع نہیں ہے۔ جہاں اس کا ذکر آیا ہے اجتہاد، دفاع اور کوشش کے فہم میں آیا ہے۔ شکوہ اور جواب شکوہ میں خداکے ساتھ مکالمہ ایک شاعرانہ تخیل ہے۔ اس میں شاعرانہ علامات کا استعمال کثرت سے کیا گیا ہے۔ مزہب کا ذکر ایک مطلق خارجی نظام کے بجائے ایک ارتقا پزیر سماجی اور ثقافتی تحریک کے طور پر کیا گیا ہے۔
 
نخل اسلام نمونہ ہے برومندی کا
پھل ہے يہ سينکڑوں صديوں کی چمن بندی کا
 
The tree of Islam is an example of fertility
Its a fruit born after the garden was nurtured for centuries
 
عہد حاظر کے فکری تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے فرسودہ نظریات کو مسترد کرنے کی بات کی گئی ہے۔     
 
عہد نو برق ہے ، آتش زن ہر خرمن ہے
ايمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گلشن ہے
اس نئی آگ کا اقوام کہن ايندھن ہے
ملت ختم رسل شعلہ بہ پيراہن ہے
 
New age is lightening, it burns all nests
No desert or garden is safe from it
Old nations are the fuel of this fire
The Ummah of the Prophet
 Has its clothes on fire too
 
میری سیاسی علیحدگی پسندی اس وقت کے مخصوص سیاسی ، سماجی اور اور معاشی حالات کا نتیجہ تھی۔ اس کا مقصد مزہبی بنیاد پر انسانوں کی گروہ بندی نہ تھا ۔ مجھے انگریزوں سےآزادی کے بعد وسیع پیمانے پر خوں ریزی کا خدشہ بھی تھا۔ بہر حال مورخین کو اس سیاسی حکمت عملی پر تنقید کا حق ہے۔ اس اہم موضوع پر مزید گفتگو اور تحقیق ضرور کی جانی چاہئے۔ یہاں میں مشہور تاریخ دان خورشید کمال عزی�� کی کتاب ''تصور پاکستان کی تاریخ '' کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔  انہوں نے مسلم علیحدگی پسندی میں میرے کردار کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا ہے۔ فی الحال ہم ان اشعار پر اس گفتگو کو ختم کرتے ہیں:
 
 کريں گے اہل نظر تازہ بستياں آباد 
مري نگاہ نہيں سوئے کوفہ و بغداد 
 
رہے نہ ایبک وغوری کے معرکے باقی
 ہمیشہ تازہ و شیریں ہے نغمۂ خسرو 

Tags:

Add comment